ٹرمپ کی پاکستان میں دلچسپی اور بھارت کی نئی سفارتی صف بندی

ٹرمپ کی پاکستان میں دلچسپی اور بھارت کی نئی سفارتی صف بندی

عالمی سیاست میں روز بروز نئی تبدیلیاں سامنے آ رہی ہیں، مگر جنوبی ایشیا کا منظرنامہ اس وقت خاصا متحرک ہو چکا ہے۔ ایک جانب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان کے حوالے سے بڑھتی دلچسپی خبروں کی زینت بنی ہوئی ہے، تو دوسری جانب بھارت اپنی سفارتی صف بندی میں نئی حکمت عملی اپنا رہا ہے۔ اس وقت “ٹرمپ کی پاکستان میں دلچسپی اور بھارت کی نئی سفارتی صف بندی” عالمی تعلقات پر براہ راست اثر ڈالنے والا ایک اہم معاملہ بن چکا ہے۔

پاکستان پر ٹرمپ کی بڑھتی توجہ

ڈونلڈ ٹرمپ، جن کا دورِ صدارت اکثر پاکستان پر تنقید سے عبارت رہا، اب بدلے ہوئے لہجے میں پاکستان کے ساتھ دوبارہ تعلقات استوار کرنے کی خواہش ظاہر کر رہے ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق ٹرمپ کی پاکستان میں دلچسپی نہ صرف جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے ہے بلکہ وہ چین کے بڑھتے اثر و رسوخ کو متوازن کرنے کے لیے پاکستان کو ممکنہ شراکت دار کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

ٹرمپ کی پاکستان میں دلچسپی کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ اگر وہ دوبارہ صدر منتخب ہوتے ہیں، تو پاکستان کے ساتھ دفاعی تعاون، تجارتی روابط اور سرمایہ کاری کو وسعت دینے کے امکانات روشن ہو سکتے ہیں۔ ایسی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ ٹرمپ کے قریبی حلقے پاکستان کے سفارتی نمائندوں سے غیر رسمی ملاقاتیں کر چکے ہیں۔

بھارت کی نئی سفارتی چالیں

بھارت اس وقت خارجہ پالیسی کے محاذ پر متحرک نظر آ رہا ہے۔ بھارت کی نئی سفارتی صف بندی میں امریکہ پر انحصار کم کر کے یورپ، مشرق وسطیٰ، وسطی ایشیا اور افریقہ کے ساتھ نئے اتحاد بنانے پر توجہ دی جا رہی ہے۔ اس کا مقصد عالمی سطح پر اپنی موجودگی مضبوط کرنا اور چین کے گرد سفارتی دائرہ وسیع کرنا ہے۔

بھارتی حکومت نے حالیہ مہینوں میں کئی نئی سفارتی تعیناتیاں کی ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی روایتی خارجہ پالیسی سے ہٹ کر ایک نئے، زیادہ فعال اور لچک دار انداز میں عالمی امور کو دیکھ رہی ہے۔

پاکستان اور بھارت: امریکی حکمت عملی کے درمیان

اس وقت جنوبی ایشیا میں امریکا کے لیے ایک نیا توازن تلاش کرنا اہم ہو گیا ہے۔ اگر ٹرمپ کی پاکستان میں دلچسپی حقیقت میں تبدیل ہو جاتی ہے، تو یہ بھارت کے لیے چیلنج بن سکتی ہے، کیونکہ اب تک امریکا اور بھارت کے درمیان اسٹریٹیجک پارٹنرشپ مضبوط رہی ہے۔

لیکن اگر امریکا دونوں ممالک کے ساتھ متوازن تعلقات قائم رکھنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، تو یہ پورے خطے کے لیے ایک نیا سفارتی منظرنامہ کھول سکتا ہے۔

پاکستان کے لیے نیا موقع

پاکستان کو چاہیے کہ وہ ٹرمپ کی پاکستان میں دلچسپی کو سنجیدگی سے لے اور سفارتی سطح پر فعال کردار ادا کرے۔ خطے میں چین، روس اور ایران کی بڑھتی شراکت داری کے تناظر میں اگر امریکا پاکستان کو دوبارہ اہمیت دینے کو تیار ہے تو اسلام آباد کو اپنی پوزیشن مستحکم کرنی چاہیے۔

یہ وقت ہے کہ پاکستان روایتی سفارت کاری سے آگے نکل کر اقتصادی، تعلیمی، سائنسی اور دفاعی میدان میں امریکا کے ساتھ نئے امکانات کو تلاش کرے۔

ایک بدلتا ہوا خطہ

“ٹرمپ کی پاکستان میں دلچسپی اور بھارت کی نئی سفارتی صف بندی” اس وقت جنوبی ایشیا کی سیاست کا وہ نکتہ ہے جس پر عالمی طاقتوں کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔ یہ ممکنہ اتحاد، سفارتی چالیں اور خارجہ پالیسی کے نئے موڑ آئندہ چند برسوں میں خطے کے مستقبل کا تعین کریں گے۔

پاکستان کے لیے یہ سنہری موقع ہے کہ وہ عالمی سطح پر اپنی ساکھ کو بہتر بنائے، جبکہ بھارت کو اپنی خارجہ پالیسی میں مزید وسعت اور لچک کی ضرورت ہے تاکہ وہ نئے بین الاقوامی اتحادوں میں مضبوطی سے اپنی جگہ بنا سکے۔