پنچایت، جرگہ اور غیرت کے نام پر قتل؛ ایک کڑوی حقیقت

پاکستان کے مختلف دیہی علاقوں میں آج بھی پنچایت اور جرگہ سسٹم کا اثر و رسوخ برقرار ہے، جہاں بعض اوقات فیصلے قانون کے بجائے روایات اور غیرت کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔ یہ نظام نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا باعث بنتا ہے بلکہ کئی بار جان لیوا نتائج کی شکل میں سامنے آتا ہے۔
حالیہ دنوں میں اندرون سندھ اور خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع سے ایسی خبریں سامنے آئی ہیں جن میں لڑکیوں اور لڑکوں کو پنچایت یا جرگہ کے فیصلے کے تحت غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیا۔ ان فیصلوں کی بنیاد عموماً خاندانی عزت، روایات یا غیرت کے نام پر رکھی جاتی ہے، جس کا شکار اکثر کم عمر اور بے گناہ نوجوان ہوتے ہیں۔
ماہرینِ قانون اور انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ جرگہ اور پنچایت جیسے غیر رسمی عدالتی نظام پاکستان کے آئین اور عدالتی دائرہ کار کے خلاف ہیں، لیکن مقامی سطح پر ان کا اثر اتنا گہرا ہے کہ اکثر لوگ عدالتوں کی بجائے انہی روایتی فورمز کا رخ کرتے ہیں۔
غیرت کے نام پر قتل کو قانونی طور پر جرم قرار دیا جا چکا ہے، اور حالیہ برسوں میں اس حوالے سے قانون سازی بھی کی گئی ہے، مگر اس کے باوجود یہ سلسلہ مکمل طور پر نہیں رک سکا۔ پولیس اور عدالتی ادارے بعض اوقات دباؤ یا مقامی سطح پر اثر و رسوخ کے باعث مکمل انصاف فراہم نہیں کر پاتے۔