فسادِ قلب و نظر کی اصلاح مگر کیسے۔۔۔؟

آج کا انسان بظاہر ترقی یافتہ، مگر باطن میں بےچین، الجھا ہوا اور گمراہ ہے۔ معاشرے میں بڑھتی بے حسی، نفرت، انتہا پسندی اور اخلاقی زوال کی ایک بڑی وجہ فسادِ قلب و نظر ہے۔ یہ سوال اکثر ذہنوں میں گونجتا ہے کہ فسادِ قلب و نظر کی اصلاح مگر کیسے ممکن ہے؟
نفسیاتی ماہرین اور علماء کرام کا ماننا ہے کہ دل اور نگاہ کی خرابی، انسان کے رویوں اور فیصلوں کو متاثر کرتی ہے۔ دل میں حسد، کینہ، اور خودغرضی جیسے جذبات جبکہ نظر میں فحاشی، حرص اور غلط رجحانات جب پروان چڑھتے ہیں تو پوری شخصیت متاثر ہوتی ہے۔ فسادِ قلب و نظر کی اصلاح مگر کیسے ہو، یہ وہ نکتہ ہے جس پر سنجیدہ غور و فکر کی ضرورت ہے۔
جامعہ الازہر کے ممتاز اسکالر شیخ خالد نے اپنے ایک خطاب میں کہا، “اگر انسان سچائی، اخلاص، اور خدا خوفی کو اپنا شعار بنا لے، تو فسادِ قلب و نظر کی اصلاح ممکن ہے۔ قرآن پاک کی تلاوت، ذکر الٰہی، اور صحبتِ صالحین اس راہ میں بہترین رہنما ہیں۔”
نفسیاتی ماہر ڈاکٹر ثناء فاطمہ کے مطابق، سوشل میڈیا، فلموں اور غیر اخلاقی مواد نے نئی نسل کی نظر اور دل دونوں کو آلودہ کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ “شعور کی بیداری، تنہائی میں محاسبہ، اور مثبت ماحول کی فراہمی فسادِ قلب و نظر کی اصلاح کی طرف پہلا قدم ہے۔”
ماہرین تعلیم بھی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ نصاب میں اخلاقی اقدار کو شامل کر کے نئی نسل کو فکری آلودگی سے بچایا جا سکتا ہے۔ “ہمیں اپنے بچوں کو محض ڈاکٹر یا انجینئر نہیں، بلکہ نیک انسان بھی بنانا ہے،” معروف معلمہ فرزانہ احمد نے کہا۔
آخر میں، یہ بات واضح ہے کہ فسادِ قلب و نظر کی اصلاح مگر کیسے ہو — یہ سوال فرد سے معاشرہ تک ہر سطح پر توجہ مانگتا ہے۔ ذاتی تربیت، روحانی وابستگی، اور اجتماعی شعور کی بیداری اس بحران کا حل ہو سکتی ہے۔