فلم ‘Freaks’ — وہ فلم جو دنیا کے کئی ممالک میں ‘منع’ قرار دی گئی

ذرا تصور کریں، آپ ایک پرانے سرکس میں داخل ہو رہے ہیں۔ چاروں طرف خاموشی ہے۔ خیمے ہلکے ہلکے ہل رہے ہیں، کہیں دور سے کوئی ہنسنے کی آواز آتی ہے، لیکن وہ ہنسی خوشی کی نہیں… خوف کی ہوتی ہے۔ آپ کے قدم آہستہ آہستہ بڑھتے ہیں، اور اچانک… کچھ چہروں سے سامنا ہوتا ہے، جو آپ نے پہلے کبھی نہیں دیکھے۔ یہ چہرے نہ انسان جیسے ہیں، نہ ہی حیوان جیسے۔ یہ وہ چہرے ہیں جنہیں دیکھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔
یہی ہے فلم کا ماحول۔ ایک ایسی فلم جسے دیکھ کر نہ صرف لوگ ڈر گئے بلکہ کئی ممالک نے اسے بین کر دیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیا تھا اس فلم میں؟
کہانی کا آغاز — سرکس کی خوفناک دنیا
“فریکس” کی کہانی ایک عام سرکس میں ہونے والے انسانی دھوکے، لالچ اور انتقام کی ہے۔ مگر جو چیز اسے عام کہانیوں سے مختلف بناتی ہے وہ ہے اس کے کردار۔
یہ کردار وہ لوگ ہیں جنہیں معاشرہ “نارمل” نہیں سمجھتا۔ کسی کے بازو نہیں، کسی کے پیر نہیں، کوئی بونا ہے، تو کوئی چہرے سے بالکل الگ دکھائی دیتا ہے۔ لیکن فلم کی خاص بات یہ ہے کہ یہ سب کردار اصلی لوگ ہیں، اداکار نہیں۔
فلم کی کہانی کا مرکز ایک بونا “ہانس” ہے جو سرکس میں کام کرتا ہے۔ ہانس ایک لمبی اور خوبصورت عورت “کلیوپیٹرا” سے محبت کر بیٹھتا ہے۔ مگر کلیوپیٹرا کا دل ہانس کے لیے نہیں، اس کی دولت کے لیے دھڑکتا ہے۔ وہ ہانس کو شادی کے جھانسے میں پھنساتی ہے تاکہ اسے زہر دے کر مار ڈالے اور سارا پیسہ ہتھیا لے۔
لیکن… جو کلیوپیٹرا نہیں جانتی، وہ یہ ہے کہ سرکس کے “فریکس” صرف تماشہ دکھانے والے نہیں، وہ اپنے خاندان کی طرح ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں۔ اور اگر کوئی ان میں سے کسی کو نقصان پہنچائے… تو انجام بہت خوفناک ہوتا ہے۔
فلم کی جرأت — اصلی کردار، اصلی چہرے
فلم کے ہدایتکار ٹوڈ براوننگ نے وہ کیا جو آج بھی فلم سازوں کے لیے خواب جیسا ہے۔ اس نے عام اداکاروں کو نہیں، بلکہ حقیقی طور پر معذور افراد کو فلم کا حصہ بنایا۔
فلم میں ایک کردار ایسا ہے جس کے ہاتھ نہیں، صرف پیر ہیں۔ ایک سین میں وہ صرف اپنے پیروں سے سگریٹ جلاتا ہے۔ ایک اور کردار جس کا جسم صرف ٹانگوں پر مشتمل ہے، اپنے بازوؤں کے بغیر چلتا ہے۔ یہ سب کچھ جعلی نہیں، بالکل اصلی ہے۔
جب 1932 میں یہ فلم سینما گھروں میں لگی، تو لوگ فلم بیچ میں چھوڑ کر باہر بھاگنے لگے۔ کئی لوگ دماغی دباؤ، خوف اور بےچینی کا شکار ہو گئے۔ اخبارات میں فلم کو “انسانی ظلم” اور “وحشی پن” قرار دیا گیا۔
خوفناک اختتام — کلیوپیٹرا کا انجام
اب بات کرتے ہیں فلم کے اُس حصے کی جس نے اسے “کالٹ کلاسک” بنا دیا۔
جب کلیوپیٹرا کی سازش پکڑی جاتی ہے، تو فلم ایک ڈراؤنے موڑ لیتی ہے۔ سرکس کے تمام “فریکس” بارش کی رات ایک گاڑی میں اکٹھے ہوتے ہیں۔ اندھیرا، بجلی کی کڑک، پانی کی بوندا باندی… اور اُن سب کے چہرے پر خاموش انتقام کی لہر۔
کلیوپیٹرا کو پکڑ کر وہ سب اُس کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں جو دیکھنے والوں کو زندگی بھر یاد رہتا ہے۔ فلم کے آخر میں، جب وہ دوبارہ اسکرین پر آتی ہے، تو وہ مکمل طور پر بدل چکی ہوتی ہے — ایک عجیب و غریب، انسان سے زیادہ جانور لگنے والی مخلوق۔
یہ انجام اتنا خوفناک تھا کہ سینما ہال میں چیخوں کی آوازیں آتیں۔ کئی ناظرین بےہوش ہو گئے، کچھ روتے ہوئے باہر نکلے۔
ہدایتکار کی قیمت — ایک شاہکار کی سزا
ٹوڈ براوننگ کو “Freaks” بنانے کی بھاری قیمت چکانی پڑی۔ جب فلم فلاپ ہوئی اور تنقید کا نشانہ بنی، تو اسے اگلی کوئی بڑی فلم بنانے کا موقع نہ ملا۔ جو ہدایتکار ایک وقت میں کامیابی کی علامت تھا، وہ اچانک سینما انڈسٹری سے باہر کر دیا گیا۔
یہ فلم اس کے کیریئر کا اختتام بن گئی۔ لیکن سچ یہ ہے کہ وقت نے اس فلم کو وہ عزت دی جو ابتدا میں نہیں ملی۔
کون ہے اصلی “فریک”؟
“کیا وہ لوگ جو مختلف پیدا ہوتے ہیں، خوفناک ہوتے ہیں؟ یا وہ لوگ جو دوسروں کو دھوکہ دے کر اپنا مطلب نکالتے ہیں؟”
فلم کے کردار تو شاید معذور تھے، مگر دل سے سچے اور وفادار۔ جبکہ “نارمل” انسان، کلیوپیٹرا، دھوکہ باز، لالچی اور قاتلہ نکلی۔
فلم کے ایک مشہور مکالمے نے سب کچھ کہہ دیا
“One of us, one of us! We accept her, we accept her!”
یہ جملہ آج بھی انٹرنیٹ پر میمز اور کلچر میں جگہ بنائے ہوئے ہے۔
آخری الفاظ — خوف، ہمدردی، اور سچائی
“فریکس” صرف ایک فلم نہیں، بلکہ ایک آئینہ ہے۔ یہ ہمیں دکھاتی ہے کہ ہم کس طرح “ظاہری فرق” کو بنیاد بنا کر دوسروں کو کمتر سمجھتے ہیں۔ یہ فلم ہمیں ڈراتی ہے، ہلاتی ہے، اور سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔
ہو سکتا ہے آپ کو یہ فلم ڈرا دے، لیکن اس کا اصل مقصد ہے — آپ کے دل کو جگانا۔
تو اگر آپ ہارر فلموں کے شوقین ہیں اور کچھ سچائی پر مبنی، اندر سے ڈرانے والا تجربہ چاہتے ہیں، تو “Freaks” ضرور دیکھیں۔ لیکن خبردار… یہ فلم صرف آنکھوں سے نہیں، روح سے محسوس ہوتی ہے۔