جب ایک روبوٹ نے بادشاہ چارلس کی تصویر بنائی
یہ کوئی سائنس فکشن فلم کا منظر نہیں تھا اور نہ ہی کسی نمائش میں دکھائی جانے والی فرضی تخلیق۔ یہ ایک حقیقی واقعہ ہے جس نے ٹیکنالوجی اور فن کے ملاپ کو ایک نئے باب میں داخل کر دیا ہے۔
دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ وہ کام جو کبھی صرف انسانوں کے لیے مخصوص سمجھے جاتے تھے، اب روبوٹس بھی بخوبی انجام دے رہے ہیں۔ کبھی مشینوں کا استعمال صرف صنعتوں تک محدود تھا، پھر وہ انسانوں کی مدد کرنے لگیں اور اب وہ تخلیق کرنے لگی ہیں۔

حال ہی میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے نہ صرف فنکاروں کو بلکہ عام لوگوں کو بھی حیرت میں ڈال دیا۔ برطانیہ کے بادشاہ چارلس کی ایک پینٹنگ ایک انسان نے نہیں بلکہ ایک انسان نما روبوٹ نے بنائی — اور وہ بھی ایسی مہارت سے کہ دیکھنے والوں کو یقین کرنا مشکل ہو گیا۔
روبوٹ کیسے بنا فنکار؟
یہ کوئی عام روبوٹ نہیں تھا۔ اسے خاص طور پر مصوری کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ اس روبوٹ میں جدید ترین مصنوعی ذہانت (AI) سسٹمز نصب ہیں جو اس کی آنکھوں، دماغ اور ہاتھوں کا کردار ادا کرتے ہیں۔ روبوٹ کی آنکھوں میں کیمرے نصب ہیں جو تصاویر کو تفصیل سے دیکھتے ہیں، دماغ میں الگوردمز کام کرتے ہیں جو معلومات کو پروسیس کرتے ہیں اور ایک خودکار بازو اُس معلومات کو رنگوں کی شکل میں کینوس پر منتقل کرتا ہے۔
اس پراجیکٹ کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ کیا مشینیں صرف حساب کتاب یا میکینکل کاموں تک محدود ہیں یا وہ انسانی جذبات و تخلیق کا انداز بھی اپنا سکتی ہیں؟
جب بادشاہ چارلس کا پورٹریٹ مکمل ہوا تو ماہرین فنونِ لطیفہ بھی یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ روبوٹ نے تصویر میں نہ صرف چہرے کی ساخت کو باریکی سے پیش کیا بلکہ جذبات، تاثرات اور روشنی کا استعمال بھی اس انداز سے کیا جو ایک تربیت یافتہ انسان فنکار ہی کر سکتا ہے۔
یہ تصویر آخر کتنی خاص تھی؟
روبوٹ نے جو تصویر تیار کی وہ تیل کے کینوس پر پینٹ کی گئی تھی۔ اس میں بادشاہ چارلس کی شخصیت کو نہایت باوقار انداز میں پیش کیا گیا۔ رنگوں کا استعمال، چہرے کے خدوخال کی نزاکت، اور آنکھوں میں جھلکتی گہرائی نے دیکھنے والوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کیا فن اب صرف انسانوں کا شعبہ نہیں رہا؟
تصویر دیکھنے والوں کی رائے میں، اگر یہ نہ بتایا جائے کہ یہ روبوٹ کی تخلیق ہے، تو کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ یہ کسی مشین کا کام ہے۔
مصنوعی ذہانت: تخلیق یا نقل؟
یہ سوال اب بار بار اُٹھ رہا ہے کہ جب ایک مشین انسانوں کی طرح تصویر بنا سکتی ہے، تو کیا وہ حقیقت میں تخلیق کر رہی ہے یا محض نقل؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت میں جذبات یا احساسات نہیں ہوتے، لیکن وہ موجودہ ڈیٹا سے سیکھ کر ایسا انداز اپنا سکتی ہے جو انسانوں کو متاثر کرے۔ روبوٹ جب ہزاروں تصویریں دیکھتا ہے، ان کا تجزیہ کرتا ہے، اور پھر اپنی “سمجھ” سے نئی تصویر تخلیق کرتا ہے، تو یہ عمل بلاشبہ تخلیقی کہلا سکتا ہے — اگرچہ یہ “احساسات” پر مبنی نہ ہو۔
فن صرف رنگوں کو جوڑنے کا نام نہیں، بلکہ وہ ایک پیغام ہوتا ہے۔ اور اگر مشین یہ پیغام اس انداز سے پہنچا رہی ہے کہ انسان اس سے جُڑ جائے، تو یہ یقیناً ایک تخلیقی انقلاب ہے۔
کیا فنکاروں کو خطرہ ہے؟
اس سوال نے بہت سے فنکاروں کو پریشان کر دیا ہے۔ کیا روبوٹ اب ان کی جگہ لے لیں گے؟ کیا گیلریوں میں مشینی فن پارے دکھائے جائیں گے اور انسانی تخلیقات کو پیچھے چھوڑ دیا جائے گا؟
نوجوانوں کے لیے ڈیجیٹل ٹریننگ پروگرامز کے دوسرے مرحلے کا آغاز

نوجوانوں کے لیے ڈیجیٹل ٹریننگ پروگرامز کے دوسرے مرحلے کا آغاز
ماہرین کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت انسانی فن کی جگہ نہیں لے سکتی، لیکن اس کی شمولیت فن کی دنیا کو وسعت ضرور دے گی۔ بالکل ایسے ہی جیسے کیمرہ ایجاد ہونے پر یہ سمجھا گیا تھا کہ مصوری ختم ہو جائے گی، مگر ہوا اس کے برعکس۔ مصوری ایک نئی جہت میں داخل ہو گئی۔ کچھ ایسی ہی صورتحال اب بھی ہے۔
روبوٹ فنکار ایک نیا تجربہ ہیں، جو انسانوں کو چیلنج تو کرتے ہیں، لیکن اُنہیں نئی راہیں بھی دکھاتے ہیں۔
فن اور ٹیکنالوجی کا نیا ملاپ
روبوٹ کا بادشاہ چارلس کی تصویر بنانا محض ایک فنی تجربہ نہیں، بلکہ یہ ایک تہذیبی اور فکری سوال ہے: “فن کیا ہے؟” اور “فنکار کون؟”
اگر کوئی مشین بھی ہمیں وہی جمالیاتی خوشی دے سکتی ہے جو ایک انسان دے سکتا ہے، تو کیا ہم اسے فنکار کہہ سکتے ہیں؟ اور اگر نہیں، تو کیا یہ ممکن ہے کہ ہم فن کی تعریف کو وسیع تر کریں؟